رام جیٹھ ملانی
ان کی وکالت ان کی سیاسی وابستگی سے ہمیشہ آزادرہی
مقبول احمدسراج
ممتازقانون دان اور مشہور وکیل رام جیٹھ ملانی کی وفات سے ملک نے ایک نایاب جوہر کھودیا ہے۔ حق گو، آزاد طبع، صاف ذہن جیٹھ ملانی ایک مرنجا مرنج شخصیت کے حامل تھے۔ 95برس کی زندگی پانے والے اس وکیل کو اکثرلوگ ملک کا مہنگے ترین وکیل کی حیثیت سے جانتے ہیں مگر پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہجرت شدہ اس شخص کی زندگی کے کئی گوشے عوامی نظروں سے مخفی رہے ہیں۔
جیٹھ ملانی نے صوبہ سندھ کے شکاری پورشہر میں جنم لیا۔ ان کے والد اور دادا دونوں کامیاب وکیل تھے۔ ان کی ولادت کے وقت ان کی والدہ کی عمر محض 14برس تھی۔ لہٰذا وہ ساری زندگی ان سے بڑی بہن جیسا برتائو کرتے رہے۔ ان کی ذکاوت اور فہم کی وجہ سے انہیں اپنی اسکول میں دوبار ڈبل پروموشن ملا اور محض 13برس کی عمر وہ میٹریکرلیشن مکمل کرچکے اور 17برس کی عمر میں کراچی میں قانون کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ مگر نئے قانون کی رُو سے صرف 21برس کی عمر میں کوئی بارکونسل کا رُکن نامزد کیا جاسکتا تھا جس کے بعد وکالت کی پریکٹس شروع کی جاسکتی تھی۔ ان کی وکالت کی ابتداء اس قانون کے جواز کو چیلنج کے کیس سے ہوئی۔ انہوں نے اپنی فریاد میں سوال کیا کہ جب 17برس میں قانون کی ڈگری مکمل ہوسکتی ہے تو بھلا ایسے سندیافتگان کو کیوں کر قانونی پریکٹس سے روکا جاسکتا ہے۔ کراچی کورٹ کے جج گوڈفرے نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔
اس طرح 1923میں پیداہونے والے جیٹھ ملانی نے 1940 میں وکالت کا آغاز کردیا۔ ان کے قریبی دوست اللہ بخش بروہی کی لاء فرم سے اس کا آغاز ہوا۔ بروہی خود کامیاب وکیل تھے۔ ان دونوں نے A.K. Brohi & Co. قائم کی۔
1947میں برصغیرکی تقسیم سے کراچی فوری طورپر متاثرنہیں ہوا۔ البتہ پنجاب کی سرحد پر آبادی کے تبادلے سے بڑا خون خرابہ ہوا۔ مگر فروری 1948تک کراچی آنے والے مسلم مہاجرین اور ان کی خونچکاں داستانوں کے عام ہونے کے بعد فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثرہونے لگی۔ جلد ہی فضا مسموم ہوگئی اور کراچی کے ایک گرودوارہ میں سکھوں کے ایک گروہ کے زندہ جلائے جانے کے بعد تو غیرمسلموں نے کراچی سے بمبئی ہجرت کرنی شروع کردی۔ پہلے پہل مردوں نے خواتین اور بچوں کو جہاز سے بمبئی بھیجا اور اس امید پر ٹھہرے رہے کہ شاید فضا دوبارہ سازگار ہوجائے۔ مگر فروری 1948میں حالات بہت بگڑگئے۔ بروہی نے رام جیٹھ ملانی کو 18فروری 1948کو کراچی کی بندرگاہ پر الوداع کہا اور بمبئی خط لکھ کر ان کی وہاں رہائش کا نظم کردیا۔
ہندوپاک تقسیم ہوگئے مگر بروہی اور جیٹھ ملانی کا دوستانہ تاحیات قائم رہا۔ دونوں ہی اپنے ممالک کے وفاقی وزیربرائے قانون و انصاف مقرر ہوئے۔ بروہی 1953 میں اور جیٹھ ملانی 1998میں۔
بمبئی ہجرت کے مدتوں بعد تک بروہی ٹیلی فون پر جیٹھ ملانی کی خیریت دریافت کرتے رہے۔ رام جیٹھ ملانی کی سوانح حیات لکھتے ہوئے سوسن ایڈلمین (Susan Adelman) لکھتی ہیں: بروہی نے ایک بار ان سے کہا: ''رام! میں نے جتنے بھی پیسے کمائے ہیں وہ تمہارے لئے ہیں۔ تمہیں جب بھی ضرورت ہو بتائو میں تمہیں بھجوادوںگا۔'' جیٹھ ملانی نے انہیں جواباً لکھا: ''بروہی! مجھے پتہ ہے تم صدا میرے لئے حاضرہو۔ ضرورت ہوئی تو میں تمہیں یاد کرلوںگا۔''
رام جیٹھ ملانی کی اس کی ضروت چندبرس بعد پڑی جب بمبئی میں ایک کراچی ہجرت کرنے والے مسلمان سے اپنوں نے کار خریدی جو کراچی میں اس کی قیمت کی ادائیگی کا خواہاں تھا۔ بروہی نے یہ پیسے کراچی میں انہیں اداکئے۔ اسی طرح ایک اور تبالے میں رام جیٹھ ملانی نے بمبئی میں ایک مسلمان سے مکان حاصل کیا اور کراچی میں اسے اپنامکان حوالے کیا۔ جب بروہی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر بنے تو وہ رام جیٹھ ملانی کو سپریم کورٹ کے کیسوں کی پیری کے دوران دہلی آمد پر اپنے یہاں قیام پراصرارکرتے۔
جیٹھ ملانی 1981سے بمبئی کے عدالتی افق پر ابھرنے لگے۔ کئی مقدمات میں ان کی کامیابی نے ان کا نام روشن کیا۔ ان کے دومقدمات جو اوّلین دور میں لڑے گئے یادگار رہیںگے۔ پہلا کیس بمبئی رفیوجیزایکٹ سے متعلق تھا۔ اس ایکٹ کے تحت مہاجرین کو کیمپوں میں تقریباً مقیدرکھا جارہا تھا اور ان کی نقل و حمل پر نظررکھی جارہی تھی۔ جیٹھ ملانی نے PILداخل کرکے کورٹ سے تمام پانبدیاں ختم کروائیں۔ دوسری بڑی کامیابی سندھی زبان کی رسم الخط سے متعلق تھی۔ بمبئی کے حکام سندھی کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے پر اصرار کرتے۔ جیٹھ ملانی نے کورٹ سے کہا کہ سندھی ہمیشہ سے عربی و فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہے اور اس کے دیوناگری میں لکھے جانے پر وہ مجبور نہیں کرسکتے۔ کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کو آزادی ہوگی کہ عربی یا دیوناگری میں سے کسی بھی رسم الخط کا انتخاب کریں۔
صاف ذہن کے حامل اور فرقہ وارانہ منافرت سے عاری جیٹھ ملانی نے اپنی وکالت کو اپنی سیاسی وابستگی سے آزادرکھا۔ بی۔جے۔پی۔ میں رہ کر بھی انہوں نے اس کے مخالفین کے مقدمات کی پیروی کی۔ جہاں انہوں نے بمبئی کے اسمگلروں کا عدالتی دفاع کیا وہیں اندراگاندھی کے قاتلوں کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ چارہ گھوٹالے میں لالوپرسادیادو کے وکیل بھی تھے اور عآپ کے اروندکیجریوال اور ارُون جیٹلی کی کشمکش میں کیجریوال کا عدالتی دفاع کیا۔ جیٹلی نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کررکھاتھا۔ ستم ظریفی یہ بھی دیکھئے کہ وہ جئے للیتاکا بھی قانونی دفاع کررہے تھے۔
سیاسی میدان میں انہوں نے کافی قلابازیاں دکھائیں۔ لوک سبھا کے لئے 1971میں وہ پہلی بار منتخب ہوئے اور اس میں شیوسینانے ان کی تائید کی۔ موت کے وقت وہ لالوپرسادکی RJDکے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے ممبرتھے۔ ان کی پہلی شادی 1941میں دُرگااہوجہ سے کراچی میں ہوئی تھی۔ مگر بمبئی آمد پر انہوں نے سوشیل ورکر رتناسے دوسری شادی کی اور دنوں کے درمیان خوشگوار تعلقات رکھے۔
گرچہ سیاسی طور پر وہ BJPکے کافی عرصہ رُکن رہے مگر پارٹی کے خلاف ضمیر کی آواز کو کبھی نہ دباسکے۔ 2004میں انہوں نے لکھنؤ سے واجپئی کے خلاف لوک سبھاکا انتخاب بھی لڑا۔ 2013میں جب انہوں نے BJPکے اندر بدعنوانیوں پر اپنی آواز بلند کی تو مودی اور شاہ نے انہیں پارٹی کی رُکنیت سے برخواست کردیا۔
جیٹھ ملانی اپنی زوربیان سے مخالفین کو چپ کردینے کا ملکہ رکھتے تھے۔ بابری مسجد کے سانحے سے دو ماہ قبل انڈیاانٹرنیشنل سنٹردہلی میں سیدحامدصاحب اس مسئلہ کے حل کے لئے صحافیوں، دانشوروں اور اہم صائب الرائے اشخاص کا ایک اجلاس بلایاتھا۔ اس میں جیٹھ ملانی بھی مدعوتھے۔ جیٹھ ملانی گرچہ بی۔جے۔پی۔ کے رُکن تھے مگر پارٹی کو مسائل پر اسٹریٹ پاور کے استعمال سے احتراز کا مشورہ بھی دینے والوں میں سے گنے جاتے تھے۔ اس اجلاس میں جیٹھ ملانی نے مسلمانوں کو دوستانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ مسجد پر اپنا دعویٰ چھوڑدیں اور بی۔جے۔پی۔ کے پھُولتے اور پھیلتے ہوئے غبارہ کو پھوڑدیں۔ اور زورِبیان کچھ ایسا تھا کہ سامعین دَم بخود رہ گئے۔ ایک ہم نشیں JNUکی پروفیسرنے سرگوشی کے انداز میں کہا اس شخص کے زوربیان کے آگے ہم تمام گونگے ہیں۔
(اس مضمون کی خاطر جیٹھ ملانی کی سوانح حیات The Rebel اور ملکہ اہلوالیہ کی تازہ کتاب
"by Malika Ahluwalia "Divided by Partition ے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔)
ان کی وکالت ان کی سیاسی وابستگی سے ہمیشہ آزادرہی
مقبول احمدسراج
ممتازقانون دان اور مشہور وکیل رام جیٹھ ملانی کی وفات سے ملک نے ایک نایاب جوہر کھودیا ہے۔ حق گو، آزاد طبع، صاف ذہن جیٹھ ملانی ایک مرنجا مرنج شخصیت کے حامل تھے۔ 95برس کی زندگی پانے والے اس وکیل کو اکثرلوگ ملک کا مہنگے ترین وکیل کی حیثیت سے جانتے ہیں مگر پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہجرت شدہ اس شخص کی زندگی کے کئی گوشے عوامی نظروں سے مخفی رہے ہیں۔
جیٹھ ملانی نے صوبہ سندھ کے شکاری پورشہر میں جنم لیا۔ ان کے والد اور دادا دونوں کامیاب وکیل تھے۔ ان کی ولادت کے وقت ان کی والدہ کی عمر محض 14برس تھی۔ لہٰذا وہ ساری زندگی ان سے بڑی بہن جیسا برتائو کرتے رہے۔ ان کی ذکاوت اور فہم کی وجہ سے انہیں اپنی اسکول میں دوبار ڈبل پروموشن ملا اور محض 13برس کی عمر وہ میٹریکرلیشن مکمل کرچکے اور 17برس کی عمر میں کراچی میں قانون کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ مگر نئے قانون کی رُو سے صرف 21برس کی عمر میں کوئی بارکونسل کا رُکن نامزد کیا جاسکتا تھا جس کے بعد وکالت کی پریکٹس شروع کی جاسکتی تھی۔ ان کی وکالت کی ابتداء اس قانون کے جواز کو چیلنج کے کیس سے ہوئی۔ انہوں نے اپنی فریاد میں سوال کیا کہ جب 17برس میں قانون کی ڈگری مکمل ہوسکتی ہے تو بھلا ایسے سندیافتگان کو کیوں کر قانونی پریکٹس سے روکا جاسکتا ہے۔ کراچی کورٹ کے جج گوڈفرے نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔
اس طرح 1923میں پیداہونے والے جیٹھ ملانی نے 1940 میں وکالت کا آغاز کردیا۔ ان کے قریبی دوست اللہ بخش بروہی کی لاء فرم سے اس کا آغاز ہوا۔ بروہی خود کامیاب وکیل تھے۔ ان دونوں نے A.K. Brohi & Co. قائم کی۔
1947میں برصغیرکی تقسیم سے کراچی فوری طورپر متاثرنہیں ہوا۔ البتہ پنجاب کی سرحد پر آبادی کے تبادلے سے بڑا خون خرابہ ہوا۔ مگر فروری 1948تک کراچی آنے والے مسلم مہاجرین اور ان کی خونچکاں داستانوں کے عام ہونے کے بعد فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثرہونے لگی۔ جلد ہی فضا مسموم ہوگئی اور کراچی کے ایک گرودوارہ میں سکھوں کے ایک گروہ کے زندہ جلائے جانے کے بعد تو غیرمسلموں نے کراچی سے بمبئی ہجرت کرنی شروع کردی۔ پہلے پہل مردوں نے خواتین اور بچوں کو جہاز سے بمبئی بھیجا اور اس امید پر ٹھہرے رہے کہ شاید فضا دوبارہ سازگار ہوجائے۔ مگر فروری 1948میں حالات بہت بگڑگئے۔ بروہی نے رام جیٹھ ملانی کو 18فروری 1948کو کراچی کی بندرگاہ پر الوداع کہا اور بمبئی خط لکھ کر ان کی وہاں رہائش کا نظم کردیا۔
ہندوپاک تقسیم ہوگئے مگر بروہی اور جیٹھ ملانی کا دوستانہ تاحیات قائم رہا۔ دونوں ہی اپنے ممالک کے وفاقی وزیربرائے قانون و انصاف مقرر ہوئے۔ بروہی 1953 میں اور جیٹھ ملانی 1998میں۔
بمبئی ہجرت کے مدتوں بعد تک بروہی ٹیلی فون پر جیٹھ ملانی کی خیریت دریافت کرتے رہے۔ رام جیٹھ ملانی کی سوانح حیات لکھتے ہوئے سوسن ایڈلمین (Susan Adelman) لکھتی ہیں: بروہی نے ایک بار ان سے کہا: ''رام! میں نے جتنے بھی پیسے کمائے ہیں وہ تمہارے لئے ہیں۔ تمہیں جب بھی ضرورت ہو بتائو میں تمہیں بھجوادوںگا۔'' جیٹھ ملانی نے انہیں جواباً لکھا: ''بروہی! مجھے پتہ ہے تم صدا میرے لئے حاضرہو۔ ضرورت ہوئی تو میں تمہیں یاد کرلوںگا۔''
رام جیٹھ ملانی کی اس کی ضروت چندبرس بعد پڑی جب بمبئی میں ایک کراچی ہجرت کرنے والے مسلمان سے اپنوں نے کار خریدی جو کراچی میں اس کی قیمت کی ادائیگی کا خواہاں تھا۔ بروہی نے یہ پیسے کراچی میں انہیں اداکئے۔ اسی طرح ایک اور تبالے میں رام جیٹھ ملانی نے بمبئی میں ایک مسلمان سے مکان حاصل کیا اور کراچی میں اسے اپنامکان حوالے کیا۔ جب بروہی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر بنے تو وہ رام جیٹھ ملانی کو سپریم کورٹ کے کیسوں کی پیری کے دوران دہلی آمد پر اپنے یہاں قیام پراصرارکرتے۔
جیٹھ ملانی 1981سے بمبئی کے عدالتی افق پر ابھرنے لگے۔ کئی مقدمات میں ان کی کامیابی نے ان کا نام روشن کیا۔ ان کے دومقدمات جو اوّلین دور میں لڑے گئے یادگار رہیںگے۔ پہلا کیس بمبئی رفیوجیزایکٹ سے متعلق تھا۔ اس ایکٹ کے تحت مہاجرین کو کیمپوں میں تقریباً مقیدرکھا جارہا تھا اور ان کی نقل و حمل پر نظررکھی جارہی تھی۔ جیٹھ ملانی نے PILداخل کرکے کورٹ سے تمام پانبدیاں ختم کروائیں۔ دوسری بڑی کامیابی سندھی زبان کی رسم الخط سے متعلق تھی۔ بمبئی کے حکام سندھی کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے پر اصرار کرتے۔ جیٹھ ملانی نے کورٹ سے کہا کہ سندھی ہمیشہ سے عربی و فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہے اور اس کے دیوناگری میں لکھے جانے پر وہ مجبور نہیں کرسکتے۔ کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کو آزادی ہوگی کہ عربی یا دیوناگری میں سے کسی بھی رسم الخط کا انتخاب کریں۔
صاف ذہن کے حامل اور فرقہ وارانہ منافرت سے عاری جیٹھ ملانی نے اپنی وکالت کو اپنی سیاسی وابستگی سے آزادرکھا۔ بی۔جے۔پی۔ میں رہ کر بھی انہوں نے اس کے مخالفین کے مقدمات کی پیروی کی۔ جہاں انہوں نے بمبئی کے اسمگلروں کا عدالتی دفاع کیا وہیں اندراگاندھی کے قاتلوں کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ چارہ گھوٹالے میں لالوپرسادیادو کے وکیل بھی تھے اور عآپ کے اروندکیجریوال اور ارُون جیٹلی کی کشمکش میں کیجریوال کا عدالتی دفاع کیا۔ جیٹلی نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کررکھاتھا۔ ستم ظریفی یہ بھی دیکھئے کہ وہ جئے للیتاکا بھی قانونی دفاع کررہے تھے۔
سیاسی میدان میں انہوں نے کافی قلابازیاں دکھائیں۔ لوک سبھا کے لئے 1971میں وہ پہلی بار منتخب ہوئے اور اس میں شیوسینانے ان کی تائید کی۔ موت کے وقت وہ لالوپرسادکی RJDکے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے ممبرتھے۔ ان کی پہلی شادی 1941میں دُرگااہوجہ سے کراچی میں ہوئی تھی۔ مگر بمبئی آمد پر انہوں نے سوشیل ورکر رتناسے دوسری شادی کی اور دنوں کے درمیان خوشگوار تعلقات رکھے۔
گرچہ سیاسی طور پر وہ BJPکے کافی عرصہ رُکن رہے مگر پارٹی کے خلاف ضمیر کی آواز کو کبھی نہ دباسکے۔ 2004میں انہوں نے لکھنؤ سے واجپئی کے خلاف لوک سبھاکا انتخاب بھی لڑا۔ 2013میں جب انہوں نے BJPکے اندر بدعنوانیوں پر اپنی آواز بلند کی تو مودی اور شاہ نے انہیں پارٹی کی رُکنیت سے برخواست کردیا۔
جیٹھ ملانی اپنی زوربیان سے مخالفین کو چپ کردینے کا ملکہ رکھتے تھے۔ بابری مسجد کے سانحے سے دو ماہ قبل انڈیاانٹرنیشنل سنٹردہلی میں سیدحامدصاحب اس مسئلہ کے حل کے لئے صحافیوں، دانشوروں اور اہم صائب الرائے اشخاص کا ایک اجلاس بلایاتھا۔ اس میں جیٹھ ملانی بھی مدعوتھے۔ جیٹھ ملانی گرچہ بی۔جے۔پی۔ کے رُکن تھے مگر پارٹی کو مسائل پر اسٹریٹ پاور کے استعمال سے احتراز کا مشورہ بھی دینے والوں میں سے گنے جاتے تھے۔ اس اجلاس میں جیٹھ ملانی نے مسلمانوں کو دوستانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ مسجد پر اپنا دعویٰ چھوڑدیں اور بی۔جے۔پی۔ کے پھُولتے اور پھیلتے ہوئے غبارہ کو پھوڑدیں۔ اور زورِبیان کچھ ایسا تھا کہ سامعین دَم بخود رہ گئے۔ ایک ہم نشیں JNUکی پروفیسرنے سرگوشی کے انداز میں کہا اس شخص کے زوربیان کے آگے ہم تمام گونگے ہیں۔
(اس مضمون کی خاطر جیٹھ ملانی کی سوانح حیات The Rebel اور ملکہ اہلوالیہ کی تازہ کتاب
"by Malika Ahluwalia "Divided by Partition ے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔)
No comments:
Post a Comment