Saturday, February 23, 2019

Remembering Maulana Abul Kalam Azad





🌙
یومِ وفات ۔۔۔۔۔۔ 22 فروری ۔۔۔۔۔۔ 1958ء
امامُ الہند حضرت مولانا ابُوالکلام آزاد صاحب
نوّر اللہ مرقدہ ۔

 مُحمّد طاھر غفرلہ قاسمی دھلوی

آپ ہندوستان اور کانگریس کے مایہ ناز لیڈر ، الہلال ، البلاغ ، الندوہ ، المصباح ، احسن الاخبار ، پیغام ، دارالسّلطنت اور لسان صدق کے ایڈیٹر ، اپنے وقت کے مفسّر ، مؤرخ ، مُحقّق ، مُجاھد اور جنگِ آزادی کے علم بردار تھے ۔

ولادت :
آپ کی ولادت ذِی الحِجّہ 1305ھ مطابق 17 اگست 1888ء کو مکّہ مُکرّمہ میں ہوئی ۔ آپ کا نام مُحی الدّین احمد ہے ، ویسے ابوالکلام کے نام سے مشھور و معروف ہیں ۔ آپ کے والد ماجد کا نام حضرت مولانا خیرالدینؒ تھا ، آپ کے والد نے آپ کا تاریخی نام فیروز بخت رکھا تھا ۔ 1898ء میں جب آپ کی عمر دس سال تھی آپ اپنے والد ماجد کے ہمراہ ہندوستان آئے ۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا خیرالدینؒ نے مکّہ مُکرّمہ میں اس قدر نام کمایا تھا کہ وہ حرم شریف میں وعظ کہنے لگے تھے ، ان سے پہلے کسی ہندوستانی کو یہ اعزاز نصیب نہیں ہوا تھا ان کے علم و فضل سے متأثر ہوکر مدینہ منوّرہ کے مشھور مفتی شیخ احمد ظاھر وتریؒ نے اپنی بھانجی عالیہ کی شادی مولانا خیرالدینؒ کے ساتھ کردی ، اس طرح مولانا آزادؒ کے خاندان میں عرب اور ہندوستان کے ممتاز خاندانوں کی شاقیں جمع ہوگئیں ۔

تعلیم و تربیت :
1892ء میں آپ کی رسمِ بسم اللہ ادا کی گئی اور 1903ء میں آپ نے درسِ نظامی سے فراغت حاصل کی ۔ آپ نے کسی مدرسہ یا کالج میں نہیں پڑھا ، بلکہ آپ کی مکمل تعلیم گھر ہی پر ہوئی ۔ آپ کا گھرانہ کئی پشتوں سے عُلماء و صُلحاء کا گھرانہ شمار ہوتا تھا ۔ اسی گھرانہ میں آپ کی پرورش اور نشوونما ہوئی ۔

آپ میدان صحافت میں :
آپ نے دورانِ تعلیم ہی سے اخبار و جرائد نکالنے شروع کردئیے تھے ، چنانچہ 1899ء میں گیارہ سال کی عمر میں کلکتہ سے ماہنامہ " نیرنگ خیال " جاری کیا ، اسی طرح 1901ء میں ہفتہ وار " المصباح " جاری کیا ۔ اور 1902ء میں ہفتہ وار " احسن الاخبار " جاری فرمایا ۔ اسی طرح " لسان الصّدق ، الندوہ ، وکیل ، دارالسّلطنت ، الہلال ، البلاغ ، پیغام " وغیرہ جاری کیا ۔ ان میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو شھرت ملی وہ " الہلال " ہے ۔ جو 13 جولائی 1912ء میں شائع ہوا ۔ جس کی دھوم پورے بنگال میں مچ گئی ، لوگ صبح سے ہی اخبار کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے ۔ آخر انگریزوں نے 1914ء میں اس اخبار پر پابندی عائد کردی اور انہوں نے 18 نومبر 1914ء میں اس کی ضمانت بھی ضبط کرلی ۔ اس کے بعد آپ نے " البلاغ " اخبار جاری کیا ، جن میں ہندو مسلم بھائی چارگی کا جوش پیدا کردیا گیا ، مگر انگریزوں کی آنکھ میں وہ بھی چبھنے لگا اور انہوں نے اس اخبار پر بھی پابندی عائد کردی ۔ الغرض آپ بہت سے اخبارات کے ایڈیٹر رہے ۔
اتنی کم عمر میں اتنی بڑی کامیابی قدرت کی دین ہے ۔

آپ کی شادی :
آپ کی شادی بارہ سال کی عمر میں نو سال کی لڑکی زلیخا بیگمؒ سے ہوئی ، وہ اپنے شوھر کی خدمت کرنے میں ہی اپنا وقار سمجھتی تھی ، اور بڑی مہمان نواز تھی ، جب آپ لکھتے تھے تب آپ کو پنکھا کیا کرتی تھی ۔ 8 اگست 1942ء گوالیار ٹینک بمبئی میں جب " بھارت چھوڑو تحریک " چلائی گئی تب مولانا آزادؒ گرفتار کرلئے گئے تھے ، پنڈت نہرو اور مولانا آزادؒ کو احمد نگر جیل میں رکھا گیا تھا ، اس وقت زلیخا سخت بیمار پڑگئی ، کیونکہ انگریزوں کے خلاف پورے ملک میں بغاوت چل رہی تھی ، انگریز جیل میں ہندوستانیوں کو کافی تکلیف دے رہے ہیں ، زلیخا اور بھی ڈر رہی تھی ، آخر ان کو ٹی بی کی بیماری لگ گئی ، وہ ہر سانس میں مولانا سے ملنے اور آپ کی خیریت معلوم کرنا چاہتی تھی ۔
ڈاکٹر بی سی رائے اور دوسرے ڈاکٹر ان کا علاج کررہے تھے ۔ 3 اپریل 1943ء کو ڈاکٹر بی سی رائے جب انہیں دیکھنے گئے تو بس یہی کہا کہ خدا کے لئے مولانا کو دکھادو ، نہ تو  وقت پر انہیں دوا ملتی تھی اور نہ کھانا ، آخر تڑپتے تڑپتے زلیخا 49 سال کی عمر میں 9 اپریل 1943ء میں اس دنیا سے چل بسیں ۔ جب جنازہ میں شامل ہونے کے لئے مولانا آزادؒ کی رہائی کے واسطے ایک تار جیل کے افسر کو ملا ۔
مولانا لکھتے ہیں جس دن تار ملا اس کے دوسرے دن سپرنٹنڈنٹ میرے پاس آیا اور کہنے لگا اگر تم اس بارے میں حکومت سے کچھ کہنا چاہو تو میں اسے فورا بمبئی بھیج دوں گا ، وہ صورت حال سے بہت متأثر تھا اور اپنی ہمدردی کا یقین دلانا چاہتا تھا ، لیکن میں نے اسے صاف صاف کہدیا کہ میں حکومت سے کوئی درخواست کرنا نہیں چاہتا ہوں ، وہ پھر جواہر لال نہرو کے پاس گیا اور ان سے اس بارے میں گفتگو کی وہ سہ پہر میرے پاس آئے اور بہت دیر تک اس بارے میں مجھ سے گفتگو کرتے رہے ، لیکن میں نے ان سے بھی وہی بات کہی جو سپرنٹنڈنٹ سے کہی تھی ، بعد میں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ نے یہ بات حکومت بمبئی کے ایماں پر ہی کہی تھی ، مگر پھر بھی آپ ( مولانا ) کو رہائی نصیب نہیں ہوئی ، آخر ہزاروں ہندوستانیوں نے نم آنکھوں سے آنسو ٹپکاتے ہوئے زلیخا بیگمؒ کے جنازہ کی نماز ادا کی ، اور دوسرے مذاھب کے لوگوں نے انہیں آنسوؤں سے خراج عقیدت پیش کیا ، جب آپ 3 سال کے بعد یعنی 15 جون 1945ء میں جیل سے رہا ہوئے تو ہاوڑا ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی ، آپ جیل سے رہا ہوکر سیدھے قبرستان کی طرف چلے ، سارا ہجوم آپ کے ساتھ چل رہا تھا ، زلیخا بیگمؒ کی قبر پر گئے ، فاتحہ پڑھی اور چند آنسووں کے موتی برسائے ، آپ کے ساتھ ہزاروں لوگوں کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں ، زلیخا بیگمؒ کی یہ قربانی ہندوستان میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔  

آپ کا سیاسی و علمی کارنامہ :
آپ پہلی مرتبہ 34 سال کی عمر میں یعنی 1934ء میں دہلی کے ایک اجلاس میں کانگریس کے صدر چن لئے گئے اور ایک سال تک اس عہدہ پر فائز رہے ۔ دوسری مرتبہ آپ دوسری جنگ عظیم کے وقت 1939ء میں رام گڑھ میں کانگریس کے اجلاس میں صدر منتخب ہوئے اور سات سال 1939ء سے لیکر 1946ء تک " آل انڈیا کانگریس " کے صدر کے عہدہ پر رہ کر آزادی کی حاصل کرنے کی قیادت کرتے رہے ، دوسری جنگ عظیم کا دور بھی آپ کی رہنمائی میں گزرا ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد 1946ء تک آپ نے کانگریس کی صدارت کی ۔ دوسری دفعہ کانگریس کی صدارت کرتے ہوئے رام گڑھ کے اجلاس میں آپ نے کہا تھا کہ " میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں ، میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں ، جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ، میں اس کی بناوٹ کا ایک ناگریز جزو ہوں ، میں اپنے اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتا ۔
اس کے بعد آپ نے خود اپنی صدارت کو پنڈت جواہر لال نہرو کو سونپ دی ۔ اور 15 اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوگیا ۔ سردار پٹیل نے کانگریس کی طرف سے کہا تھا کہ مولانا آزادؒ کے علاوہ کسی کو بھی یہ اعزاز نصیب نہیں ہوا ہے کہ جو لگاتار سات سال تک کانگریس کا صدر رہا ہو ۔ کانگریس میں آپ کے مشوروں کی بڑی اہمیت تھی ۔
آپ نے مصر کی جامعۃ الازہر یونیورسٹی سے عربی ، فارسی ، انگریزی اور فرینچ پڑھی تھی ۔ آپ نے ایک رسالہ " لسان الصدق " 30 نومبر 1903ء میں جاری کیا ، جو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا ، آپ نے لکھا ہے کہ مولانا حالی کو جب یہ معلوم ہوا کہ " لسان الصدق " کا ایڈیٹر میں ہی ہوں تو انہیں بہت تعجب ہوا ۔
آپ نے ملک کی آزادی کے لئے زبردست قربانیاں دیں ، بارہا قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا ، پوری زندگی انگریزی حکومت و اقتدار کے خلاف جہاد عظیم میں گزاری ۔
1915ء میں جب آپ رانچی میں نظر بند کردئے گئے ، جمعہ کی نماز کے وقت مسجد میں آزادی کے پروانوں کی بھیڑ لگ جایا کرتی تھی ، کیوںکہ لوگ آپ کی تقریر سننے کے خواہش مند ہوتے تھے ، چونکہ آپ مسجد کے اندر منبر کے نزدیک کھڑے ہوکر تقریر کرتے تھے لہذا لوگ آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے ، اس لئے آپ کے حکم سے منبر کے نزدیک دیوار توڑ کر ایک کھڑکی لگائی گئی ، تاکہ غیر مسلم کھڑکی سے آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کی تقریر سن سکیں ، اتنا جوش تھا آزادی کے متوالوں کا اور ان کی ایکتا کا ۔ 1922ء میں جب آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلا تو آپ نے عدالت میں کہا تھا : 
" یقینا میں نے کہا ہے کہ موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے اگر میں یہ نہ کہوں تو پھر کیا کہوں ، مجھ سے امید کی جاتی ہے کہ اس چیز کو اس کے اصلی نام سے نہ پکاروں ، میں کالے کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں ، جب کہ میں اس گورنمنٹ کی برائی پر یقین رکھتا ہوں ، میں موجودہ حکومت کو جائز نہیں سمجھتا اور قوم کو اس سے چھٹکارا دلانا میرا پیدائشی اور ملکی فرض ہے " ۔
مولانا آزادؒ کی پوری زندگی آزادی کے اوراق سے بھری پڑی ہے ۔ ملک کی آزادی کے بعد بارہ سال تک آپ ہندوستان کے وزیر تعلیم رہے ۔ 
آپ نے علمی کارنامہ بھی انجام دیا ، چنانچہ آپ کے علمی کارناموں میں " ترجمان القرآن ، خطبات آزاد ، غبار خاطر وغیرہ آپ کے علمی ، تاریخی و ادبی شاہکار ہیں ۔
سیاست کی ہنگامہ خیزیوں میں قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر جیسا عظیم کام یقینا مشکل کام ہے ، پھر بھی آپ نے قرآن پاک کے ترجمہ کی پہلی جلد 1931ء میں تیار کی ، جس کا مقدمہ 16 ستمبر 1930ء کو ڈسڑکٹ جیل ، میرٹھ میں لکھا گیا ، دوسری جلد کا دیباچہ فروری 1945ء میں ضلع احمد نگر کے قید خانہ میں لکھا گیا ، جبکہ مقدمہ 1936ء میں موتی نگر کانگریس کیمپ لکھنو میں لکھا گیا تھا ۔* 
پہلی جلد " سورۃ فاتحہ " سے " سورۃ انعام " تک پر مشتمل ، جبکہ دوسری جلد " سورۃ اعراف " سے " سورۃ مومنوں " ( 18 واں پارہ ) تک پر مشتمل ہے ، تیسری جلد فرصت نہ ملنے سے مکمل نہ ہوسکی ۔
آپ کے انتقال کے بعد مرکزی حکومت نے " ترجمان القرآن " کو بڑے اہتمام سے شائع کیا ، اور سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپائی صاحب کے دور میں اسے ہندی میں بھی بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا ہے ۔

بھارت رتن :
23 جنوری 1992ء میں حکومت ہند نے امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کو ان کی بے لوث اور انتہائی گراں قدر قومی خدمات کے اعتراف میں بھارت رتن سے نوازا تھا ، اور جناب نورالدین نے بھارت رتن کا ( بعد از مرگ ) کا ایوارڈ مولانا کی طرف سے وصول کیا تھا ۔ آپ کی بہت قیمتی مسودات ، آپ کی غیر مطبوعہ تحریریں سراسٹیفورڈ کرپس ، مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو ، لال بہادر شاستری وغیرہ کے خطوط ، مصر اور ترکی وغیرہ ملکوں کے حکمرانوں کے مکتوبات ، ترجمان القرآن کے غیر مطبوعہ حصے ، احسن الخیال ، المصباح ، نیرنگ عالم ، حدنگ نظر ، مرقع عالم ، تحفہ احمدیہ ، لسان الصدق ، الہلال اور البلاغ جیسے اہم رسائل اور نادر اشیاء ہیں ۔

وفات :
12 فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کی مولانا آزادؒ علیل ہوگئے ہیں ، اس رات کابینہ سے فارغ ہوکر غسل خانے میں گئے ، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہوگئے ، پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فورا پہنچے ، مولانا بیہوشی کے عالم میں تھے ، ڈاکٹروں نے کہا کہ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ رائے دے سکیں گے کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں ۔
ادھر آل انڈیا ریڈیو نے بر اعظم میں تشویش پیدا کردی اور یہ تأثر عام ہوگیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے ، ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا ، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندر پرشاد ( صدر جمہوریہ ہند ) ، پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم ہند ، مرکزی کابینہ کے ارکان ، بعض صوبائی وزرائے اعلٰی اور اکابر علماء کے علاوہ ہزارہا انسان جمع ہوگئے ، سبھی پریشان تھے ، 19 فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہوگیا ۔
کسی کے حواس قائم نہ تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو رفقاء سمیت اشکبار چہرے سے پھررہے تھے ، ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا ، ہندوستان بھر کی مختلف شخصیات آچکی تھیں ۔
جب شام ہوئی تو ہر امید ٹوٹ گئی ، عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہوگئی ، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ، حضرت مولانا محمد میاں دہلویؒ ، حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ وغیرہ اور مختلف علماء و حفاظ حضرات تلاوت کلام اللہ میں مشغول تھے ۔
آخر ایک بجے شب سورۃ یٰسین کی تلاوت شروع ہوگئی اور بالآخر 1377ھ مطابق 22 فروری 1958ء کو رات سوا دو بجے شب ملک کا دلارا اور آزادی ہند کا یہ عظیم مجاہد ، امام الہند دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگیا ۔
( انا للہ وانا الیہ راجعون )
اس وقت بھی سیکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے ، جیسے ہی مولانا کے انتقال کی خبر کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا ۔
رحلت کا اعلان ہوتے ہی دن چڑھے تک  تین چار لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہوگئے ، پورے ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سَرنِگوں کردئیے گئے ، ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہوگئی ، دہلی میں ہُوکا عالَم تھا ، حتیٰ کہ بینکوں نے بھی چُھٹی کردی ، ایک ہی شخص تھا جس کے لئے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے ، بالفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے ، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ ماتم کدہ تھے ۔
پون بجے میّت اٹھائی گئی ، پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفیروں نے دیا ، جب کلمۂ شھادت کی صداؤں میں جنازہ اُٹھا تو عربی سفراء کاندھا دیتے وقت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، جوں ہی جنازہ بنگلہ سے باہر توپ پر رکھا گیا تو کہرام مچ گیا، معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان رو رہا ہے ، مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا : 
"اچھا بھائی خدا حافظ "
مولانا کے جسم پر کھدر کا کفن تھا ، میّت ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹی ہوئی تھی ، جس پر کشمیری شال پڑا تھا ، جنازہ کے پیچھے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد ، اور نائب صدر جمہوریہ ، کار میں بیٹھے تھے ، ان کے پیچھے پارلیمنٹ کے ارکان ، مختلف صوبوں کے وزراء اعلٰی ، گورنر اور غیر ملکی سفراء چلے آرہے تھے ۔ ہندوستانی فوج کے تینوں چیف آف سٹاف جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ تمام راستہ پھولوں کی موسلہ دھار بارش ہوتی رہی ، دریا گنج سے جامع مسجد تک تمام راستہ پھولوں سے اَٹ گیا ، قبر کے ایک طرف علماء و حفّاظ قرآن پاک پڑھ رہے تھے اور دوسری طرف اکابر علماء سر جھکائے کھڑے تھے ۔ یہاں سب سے پہلے بری فوج کے ایک ہزار جوانوں ، ہوائی جہاز کے تین سو جانباز اور بحری فوج کے پانچ سو جوانوں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ میّت کو آخری سلام کیا ۔ پریڈ گراؤنڈ میں محتاط سے محتاط اندازہ کے مطابق بھی پانچ لاکھ افراد جمع تھے ۔
سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلویؒ صدر جمعیۃ علماء ہند نے دو بجکر پچاس منٹ پر نماز جنازہ پڑھائی ۔ پھر مولانا احمد سعید دہلویؒ نے لحد میں اتارا ، کوئی تابوت نہ تھا ، ایک یادگار جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا خاک کے حوالہ کردیا گیا ۔
آپ کا مزار جامع مسجد دہلی کے سامنے اردو پارک میں ہے ۔
اللہ تعالٰی آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ۔ آمین ۔
( تحریک آزادی اور مسلمان ، ص : 282 ، ایوان اردو دہلی ، ابوالکلام آزاد نمبر 1988 ، تذکرہ اکابر ، ص : 155 ، علماء دیوبند کے آخری لمحات ، ص : 96 ، مسلمانوں کا شاندار ماضی ، ص : 361 )

No comments:

Post a Comment